سارا شہر ویراں پڑا Coronavirus

سب کچھ رہ جائے گا یہاں
بس نام رہے گا خدا کا

روز کی طرح آج بھی گھر سے واک کیلئے نکلا ریلوے پھاٹک جو اکثر بند ملتا تھا لاک ڈائون کے بعد اب اکثر اوقات کی طرح کھلا پڑا تھا گھر سے پھاٹک تک کے راستے میں کوئی فرد نظر نہیں آیا بس اولڈ سکول کے باہر لگے درخت ہوا میں موجود ٹھنڈک کا احساس بڑھا رہے تھے پھاٹک کراس کیا تو ریلوے مارکیٹ حسب معمول بند تھی سامنے رہڑھیوں پر نظر ڈالی تو صرف تین رہڑھیاں کھلی نظر آئیں جن پر فروٹ موجود تھا مگر لینے والا گاہک کوئی نہیں عموما اس وقت ریلوے چوک پر رش رہتا ہے لاک ڈائون کے پہلے چار دن بھی رات 8 سے 9 اور دس بجے تک لوگ مل جاتے تھے ۔ آہستہ آہستہ اوور ہیڈ برج کی جانب چلا ۔ عسکری پارک ویران نظر آرہا تھا اوور ہیڈ برج کراس کیا تو واٹر سپلائی کے مرکز پہنچا ایک ہی بندہ بیٹھا موبائل میں مگن تھا اسے پانی چلانے کا کہا تو اسنے بتایا کہ مسلم کالونی والی سائیڈ چل رہی ہے اور ٹبہ جات ۔مہر آباد کو پانی صبح دے گا خراماں خرامان کرکٹ گرائونڈ کا گیٹ کراس کیا کرکٹ گرائونڈ روزانہ ہماری واک کا مرکز ہوتا تھا مگر اب وہاں پر سناٹا طاری ہے اقرا سکول سے ہوتے ہوئے سٹیڈیم روڈ پر واک شروع کی ٹوٹی پھوٹی سڑک ٹینڈر ہونے کے بعد اپنے ٹھیکیدار کےانتظار میں مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہے سٹیڈیم کے اطراف ہر طرف ہو کا عالم تھا اکا دکا کار یا بائیک گزر رہی تھئ سڑک پر درختوں کی سایہ اندھیرے کو مزید گہرا کرتا ہے ۔ سٹیڈیم کے سامنے والا پمپ بھی خالی نظر آیا صرف ایک دو سٹاف کے بندے تھے یا گن مین جو سامنے کھڑی ایک کار والوں سے پوچھ رہا تھا آپ کون ہو جو اتنی دیر سے یہاں گاڑی کھڑی کرکے کھڑے ہو ۔ تھوڑا آگے کپڑوں کی نئی دکان بند دیکھ کر اندازہ لگایا کہ اس کا کرایہ باقی دکانوں کی طرح کرایہ داروں کو ایک مصیبت کی شکل میں نظر آرہا ہوگا کہ کاروبار بند ہیں اور مشکلات دن بدن بڑھ رہی ہیں نکر پر مسجد کو بھی تالا لگا ہوا تھا
جب اللہ کا گھر بند ہوگیا اسکی مخلوق کیلئے تو پیچھے کیا رہ گیا   رب کائنات کی ناراضگی کے اسباب جاننے کیلئے دوسروں کی طرف تھوڑا دیکھنا پڑتا ہے اپنے ہی عمل کافی ہیں ہم جیسے گناہ گاروں کو اپنا گریبان دکھانے کیلئے ۔
منٹھار چوک سے مڑا تو سامنے حبیب بیکری نظر آئی لائٹس بند ۔ ساتھ والی تمام دکانیں بند پوری لائن بند باہر آج نہ بزرگ فقیر نظر آیا نہ نشہ کرنے والا گداگر ۔ فروٹ کی دکانیں بھی بند بندہ نہ بندے کی ذات ۔ ایم ٹی بی کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھا تو دو چار جو دکانیں رات گئے تک کھلی ہوتی تھیں چہل پہل ہوتی تھے بچے باہر کھڑے بوتلیں پی رہے ہوتے تھے وہاں بھی گپ اندھیرا پوری روڈ پر صرف دو میڈیکل سٹور کھلے نظر آئے ملت چوک کے قریب پہنچا تو پولیس موبائل نے کراس کیا اور چوک کے وسط مین آکھڑی ہوئی پولیس اہلکاروں نے اطیمنان کیا کہ چوک پوری طرح بند ہے پھر روانہ ہوگئے جہاز چوک سے ہوتے ہوئے ٹلو اڈا کراس کیا پوری ستار شہید روڈ بند نظر آئی ریلوے پھاٹک کھلا تھا کراس کرنے والا کوئی نہیں تھا نہ ایتھانول کی گاڑیاں ۔ نہ کھاد فیکٹریوں کی بسیں نہ صادق آباد کے رکشے ۔ اتنا سناٹا کہ ایک ہفتے سے ریلوے مارکیٹ کا ٹرانسفارمر کے اوپر لگی تار کی سپارکنگ کا شور بھی معمول سے زیادہ سنائی دیا پھاٹک کا گیٹ مین دو تین بندوں کے ساتھ بیٹھا گپیں ماررہا تھا پھاٹک کراس کیا تو ایک موٹر سائیکل پھٹ پھٹ کی آواز کرتا گزر گیا چوہدری آئل مل کراس کی اور گھر کے گیٹ تک جا پہنچا مگر دل کی اداسی ۔۔۔۔۔ اپنے شہر کی اداسی کو دیکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔

عید شب برات چھٹیاں ہوتی ہیں مگر آج اپنی زندگی مین پہلی بار اپنے شہر کو یوں اداس دیکھا کہ بس بلڈنگیں موجود ہیں درخت موجود ہیں سب کچھ موجود ہے مگر نہیں ہیں تو ہم نہیں ہیں ۔ انسان اس دنیا میں نہیں ہیں اللہ پاک کے نافرمان اس دنیا میں نہیں ہیں

رب کائنات نے ایک ان دیکھے دشمن   سے ہمیں یوں ڈرا دیا ہے کہ اب ہم اہک دوسرے سے ڈرتے ہیں سلام نہیں لے سکتے  پاس نہیں بیٹھ سکتے بات نہیں کرسکتے ۔ شادی کی رسمیں حتی کہ شادی نہیں کرسکتے ۔ رزق نہیں کماسکتے کوئی مرجائے تو کفن لیکر آنا مشکل ہوگیا کیونکہ بازار بند ہیں مسجد نہیں جاسکتے سجدہ نہیں کرسکتے وہاں جاکر
رب کائنات ہم سب پر اپنا رحم کرے ہمارے گناہ معاف فرمائے سب کو اس موذی مرض سے بچائے کورونا وائرس کا اس دنیا سے جلد سے جلد خاتمہ فرمائے اور ہم سب کو توبہ کی توفیق عطاء فرمائے آمین

Comments

Post a Comment