فرحان بھائی ہسپتال مت آنا‘ فو ن پر جتنی مرضی تفصیلات لے لیں‘ میں نے گھر جانا بھی چھوڑ دیا ہے Coronavirus hospital

کورونا کیخلاف جنگ جار ی ہے اور اس جنگ کے دوران بہت سے شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد ایسے ہیں جو فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں‘ کچھ مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں جیسے انتظامیہ‘ پولیس‘ این جی اوز اور کچھ اس مرض میں مبتلا ہونے والے مریضوں کو علاج معالجہ میں مصروف ہیں جن میں سب سے پہلے ریسیکو کے جوان ہیں جو اطلاع ملنے پر جاتے ہیں اور مریض کو حفاظتی تدابیر کے ساتھ ہسپتال پہنچاتے ہیں جس کے بعد دوسرا مرحلہ مرض کی تشخیص اور علاج کا شروع ہوتا ہے جس میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف شامل ہے مریض کے لواحقین تو ایک طرف کردئیے جاتے ہیں  ساری ذمہ داری میڈیکل کا عملہ لے لیتا ہے (ہم یہاں پر بات کرینگے صرف تحصیل صادق آباد کے حوالے سے‘ جو بطور رپورٹر میں نے دیکھا اور محسوس کیا صرف انہی چیزوں کو قلم بند کرنے کی کوشش کرونگا) اس ساری جدوجہد میں ایک فردایسا بھی ہے جو سب کو جوابدہ بھی ہے اور اس عمل کا نگران بھی‘ میڈیا بھی اسی سے سوال کرتا ہے تو افسر بھی اسی سے پوچھتے ہیں‘ عوام بھی اسی کے پاس جاتی ہے جو مسائل کا رونا بھی نہیں روسکتا‘ دن ہو یا رات جب بھی اپ ڈیٹس کیلئے میں نے انہیں فون کیا انہیں جاگتے ہوئے پایا‘ حالات ایسے ہیں سوشل میڈیا پر سچ سے زیادہ جھوٹ کی آمیزش ہوگی ہے عوام پہلے ہی خوف زدہ ہیں مزید کانا دجال‘ ایک آنکھ والا بچہ‘ داڑھی والا بچہ‘ بولنے والا بچہ پیدا کرکرکے انہیں پریشان کیا جارہا ہے ان حالات میں بطور صحافی ہمارا کام پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہے خبر سے پہلے اس کی تحقیق‘ سچائی تک پہچنا بے حد ضروری ہے‘ ادھر کسی کو کھانسی بخار ہوا ریسیکو کو بتایا جاتا ہے کہ کورونا کا شک ہے اور پھر ساتھ ہی خبر آجاتی ہے کہ کورونا کے مریض ہسپتال لائے گئے ہیں (نہ انکا ابھی چیک اپ ہوا ہوتا ہے نہ مرض کی تشخیص) اور خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل کر علاقہ  میں خوف کی فضاء بنائے رکھتی ہے  


ایسے میں سچ کو جاننے کیلئے ہمارے پاس واحد ذریعہ بچتا ہے ایم ایس تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیاقت چوہان

میری عادت ہے خبر سے پہلے اس کے پہلو اور حقائق تک ضرور جانے کی کوشش کرتا ہوں کورونا ایک  انتہائی حساس معاملہ ہے جس پر ہر خبر تحقیق طلب ہے دن ہو یا رات متعدد بار اس سلسلہ میں ایم ایس لیاقت چوہان سے رابطہ ہو پہلی کال پر فون اٹینڈ کیا گیا اور ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا‘ ضروری ڈیٹا فراہم کیا گیا پھر انکی ایکٹویٹی چیک کی تو پتا چلا کہ کئی روز سے گھر نہیں گئے‘ کبھی ہسپتال کی صفائی کرارہے ہیں تو کہیں او پی ڈی کو فنکشنل کرانے کیلئے نئی ایس او پیز (حفاظتی تدابیر) اختیار کرانے کا بندوبست کررہے ہیں کبھی قرطینہ کا دورہ کررہے ہیں تو کبھی میٹنگز اٹینڈ کررہے ہیں‘ خود حوصلہ کی چٹان بن کر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا علم ہے اگر کمانڈر کھڑا  ہے تو فوج کے حوصلے بھی بلند ہیں اور اس نازک وقت میں ڈاکٹرز سے قیمتی ہمارا اثاثہ کوئی نہیں ہے‘ ہمیں بھی معلومات فون پر لینے کی ہدایات کرتے ہوئے لیاقت چوہان کہتے ہیں کم سے کم لوگ ہسپتال آئیں 
لیاقت چوہان کو نہ صرف خود کو بلکہ اپنے سٹاف کو بھی اس مرض کا شکار ہونے سے بچانا ہے‘ ایم ایس ہونے کے ناطے پبلک ڈیلنگ بھی انکا حصہ ہے کوئی پتا نہیں ہوتا کہ کون سا شخص کیئریر ہے کونسا مرض ساتھ لا رہا ہے‘ وہ جس قرطینہ کا دورہ کرکے آئے ہیں کوئی جراثیم تو ساتھ نہیں لے آئے اس صورت میں سب سے زیادہ ان کی جو لائف ڈسٹرب ہوئی ہے وہ ہے انکی ذاتی /گھریلو لائف‘ ان کواحساس ہے وہ خطرہ کی کس سٹیج پر کھڑے ہیں اس لئے وہ کئی دنوں سے اپنے گھر نہیں گئے اپنے بچوں کو نہیں ملے‘ دن میں کئی کئی بار نہانا‘ ہاتھ دھونا انکے لئے کتنا ضروری ہے 

Coronavirus will be end inshALLAH

میری اس تحریر کا مقصد اپنے شہر کے لوگوں کو اس کمانڈر کی خدمات سے متعارف کرانا ہے جو اس کڑے وقت میں سب سے زیادہ کام کررہا ہے اور سب سے زیادہ قربانی دے دیا ہے 


Comments